بہرحال آج کل افطار پارٹی کے دوران ایک کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ مغرب کی جماعت چھوڑی جاتی ہے۔ ماہ رمضان میں ایک جماعت جس نے چھوڑ دی وہ بہت خیر و بھلائی سے محروم ہوگیا۔اس لئے جو بھی کام کریں شرعی حدود کا لحاظ ضرور کیجئے
پہلا عشرہ:۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت 14,400 منٹ کا ہوتا ہے۔ دوسرا عشرہ:۔ رمضان کا دوسرا عشرہ مغفرت 14,400 منٹ کا ہوتا ہے۔تیسرا عشرہ:۔ رمضان کا تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا 14,400 منٹ کا ہوتا ہے۔کل ماہ رمضان کے 43,200 منٹ ہوتے ہیں۔ جس میں سے ہر منٹ اربوں کھربوں ڈالروں سے بہتر ہے۔ قیمتی رمضان:۔ رمضان کو اپنے حق میں کم قیمت مت کیجئے۔ عید کی شاپنگ میں زیادہ وقت نہ لگائیے۔ تہجد:۔رمضان میں تہجد کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اٹھنا تو ہوتا ہی ہے8نفل تہجد کے ضرور پڑھا کیجئے۔مہمان کی رحمت یازحمت:۔سحری، افطاری، مہمان نوازی ان تینوں کھانوں میں بڑی برکت ہے۔
ہمیں معاشرے کی اصلاح کیلئے جہاں اور بہت سی کوتاہیوں سے بچنا ہے وہاں پر مہمان کی مہمان نوازی نہ کرنے کی کوتاہی سے بچنا بہت ضروری ہے۔ خوش دلی کے ساتھ اپنے بھائی بہنوں کا اکرام کرنا بہت ضروری ہے۔ آج کل یہ ہوتا ہے کہ کسی کے گھر مہمان کی خبر آجائے تو بعض گھرانے ناک منہ چڑھاتے ہیں (یعنی مہمانوں کے آنے کو برا سمجھتے ہیں) جبکہ بعض خواتین پریشان ہوجاتی ہیں اور یوں کہہ بیٹھتی ہیں کہ ’’ مصیبت انہوں نے بھی آج ہی آنا تھا‘‘۔ بعض بچیاں شور مچار دیتی ہیں کہ ’’ ماما ہمارے کمرے میں مہمانوں کو نہ بیٹھادیجئے گا‘‘ بعض یوں کہہ دیتی ہیں کہ ماما ہم نے مہمانوں سے نہیںملنا۔ بعض یہاں تک جرأت کرلیتی ہیں کہ ہائے اب ان کیلئے کھانا بنانا پڑے گا اور گھر بھی صاف کرنا پڑے گا۔ البتہ سب گھرانے ایسے نہیں ہوتے بلکہ اس دور میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ جس دن گھر میں مہمان نہ آئے انہیں بے چینی سی لگی رہتی ہے۔ مہمان جب بھی آتا ہے اپنی روزی ساتھ ساتھ لاتا ہے یعنی آپ کے گھر میں اس کا کھانا لکھا جاچکا ہوتا ہے۔ لہٰذا مہمان کی آمد پر جو بنایا جاتا ہے وہ اس کی قسمت میں شامل ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے۔(بخاری و مسلم)۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اکیلے کھانا نہ کھاتے تھے بلکہ کسی نہ کسی مہمان کو تلاش کرکے اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرماتے تھے اور حدیث شریف میں ہے کہ تیرا کھانا نیک آدمی ہی کھائے (ترمذی)۔ اسی لئے بزرگان دین نے مہمانوں کو کھانا کھلانے کے بعد یہ دعا تلقین فرمائی تھی۔ ’’اے اللہ! مجھے معاف کردے، کھانا کھانے والوں اور کھانا کھلانے والوں اور کھانے میں مدد کرنے والوں(کھانا پکانے والوں اور پکانے والیوں) کو بھی معاف فرمادیجئے‘‘۔ مہمانوں کے آنے سے رحمت بھی ہوتی ہے اور برکت بھی اور اس کے علاوہ کھانے والے دعائیں بھی دیتے ہیں۔ کھانے کا حساب بھی نہیں لیا جاتا اور کھانے والے اکثر مہمان نیک لوگ ہی ہوتے ہیں اور بعض مہمان تو مسافر ہوتے ہیں جن کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں۔
اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ مہمان رحمت یا زحمت؟
اس مسئلہ کو سنجیدگی سے سمجھ کر خود بھی عمل کیجئے اور گھر میں بچوں، بچیوں کو بتائیے سکھائیے اور خوش دلی سے مہمانوں کا اکرام کیجئے۔ مہمان نوازی کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ گنجائش سے زیادہ خرچ کیا جائے یا قرض پکڑ کر خرچ کیا جائے بلکہ اپنی گنجائش کے اندر رہتے ہوئے کوشش کیجئے کہ تھوڑی دیر کیلئے آیا ہوا کوئی مہمان اکرام کے بغیر واپس نہ جائے۔ ماہ رمضان میں مہمان تو کم آتے ہیں مگر افطار پارٹیاں خوب کی جاتی ہیں۔ اس مسئلے میں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ حدیث شریف میں ہے کہ جس نے کسی کا روزہ کھلوایا اس کیلئے اتنا ہی اجر ہوگا(بیہقی)۔ یعنی روزہ کھلوانے سے روزہ رکھنے کے برابر ثواب ہوگا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ روزہ رکھوانا یا کھلوانا یعنی سحری کھلوانا یا افطاری کرانا بہت بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔ مگر آج کل افطار پارٹیاں بہت سی رسومات کا شکار ہیں۔ بعض مرتبہ جبراً افطار پارٹی کی شکل بنائی جاتی ہے اور بعض جگہ نام و نمود اور دکھلاوا مقصود ہوتا ہے۔ مختلف افطار پارٹیوں میں مختلف اغراض و مقاصد شامل ہوتی ہیں عموماً امیر لوگوں کے ہاںافطار پارٹیاںقائم کی جاتی ہیں۔ بہرحال ثواب کی نیت تازہ کرکے کسی بھی غریب یا امیر کو روزہ کھلوانا بہت اجرو ثواب کا کام ہے۔ غریبوں کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے ویسے بھی ماہ رمضان میں ’’ سخاوت‘‘ بہت کرنی چاہیے۔ سب سے بہترین اور آسان افطار پارٹی یہ ہے کہ جس میں اللہ اور اس کا رسولﷺ بھی راضی ہوں گے کہ کسی ایسے سفید پوش اور صحیح مستحق گھرانوں تک حسب توفیق راشن پہنچایا جائے جو کہ صوم صلوٰۃ کے پابند ہوں اور اس انداز میں ان تک پہنچایا جائے کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو‘ نہ ان پر احسان کرنے کی نیت ہو بلکہ صرف اور صرف اللہ کی رضا پانے کی امید ہو اور یہ نیت ہو کہ شاید ان کی وجہ سے ہمارے روزے بھی اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوجائیں۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخاوت ماہ رمضان میں بہت بڑھ جاتی تھی۔ بہرحال آج کل افطار پارٹی کے دوران ایک کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ مغرب کی جماعت چھوڑی جاتی ہے۔ ماہ رمضان میں ایک جماعت جس نے چھوڑ دی وہ بہت خیر و بھلائی سے محروم ہوگیا۔اس لئے جو بھی کام کریں شرعی حدود کا لحاظ ضرور کیجئے اور مہمانوں کے آنے کو خوش دلی سے قبول کیجئے۔ باعث رحمت سمجھ کر ان سے دعائیں کرائیے۔ بوقت سحری و افطاری ماشاء اللہ تعالیٰ دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں اس لئے ان اوقات میں دعائیں بھی خوب کیجئے۔ اللہ جل شانہ ہمیں قبول شدہ نیکیوں سے بھرا رمضان نصیب فرمادیں اور ہمیں اس خزانہ رمضان کی قدر کرنے اور شریعت پرپورا پورا عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
ہزاروں گیلن پانی بچائیے! اپنے لئے قوم کیلئے
حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے پانی کے اسراف سے منع فرمایا ہے۔ آپ ﷺ ایک مرتبہ اپنے ایک صحابی حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جو وضو کررہے تھے آپ ﷺ نے فرمایا اے سعد (رضی اللہ عنہ) کیا فضول خرچی کررہے ہو۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا وضو کے معاملے میں بھی فضول خرچی ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں! خواہ تم بہتے دریا کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہوئے ہو۔ (مسند احمد، مشکوۃ) قارئین کرام! اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ پانی جیسی نعمت جو ہمیں وافر مقدار میں میسر ہے اس کا اسراف بھی درست نہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں